تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی
حوزہ نیوز ایجنسی। پیغمبر اکرم ؐ کے بہت سارے معجزات نقل ہوئے ہیں جیسے آپ کے سر مبارک پر بادل کا سایہ کرنا،آپ کے دست مبارک پر کنکریوں کا تسبیح کہنا غزوہ تبوک سے واپسی پر آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی کا پھوٹنا اور بہت سارے اصحاب کا سیراب ہونا،چاند کے دو ٹکڑے ہو جانا اور واقعہ معراج وغیرہ۔ان تمام معجزوں میں سے قرآن کریم پیغمبر اکرم کا اہم ترین معجزہ ہے۔خداوند متعال نے ان لوگوں کے سوال کے جواب میں جو کہتے تھے کہ پیغمبر اکرم ّ کیوں معجزہ نہیں رکھتے ،قرآن مجید کو پیغمبر اکرم ّ کا معجزہ قرار دیا ۔{اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کہ آخر ان پر پروردگار کی طرف سے آیت کیوں نہیں نازل ہوتی ہیں تو آپ کہ دیجئے کہ آیات سب اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف واضح طور پر عذاب الہی سے ڈرانے والاہوں ۔کیا ان کے یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس کی ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے اور یقینا اس میں رحمت اور ایماندار قوم کے لئے یاد دہانی کا سامان موجود ہے ۔۱
اعجاز قرآن کی خصوصیات
۱۔ زمان بعثت کے رایج فنون کے مطابق :
انبیاء الہی کے معجزات غالبا اسی عصر کے فنون اور علوم کے ساتھ ہماہنگ تھے ۔دانشمند ان ان معجزات کے مطالعے کے بعد ان کے خارق العادہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ۔جیسے حضرت موسی[ع] کے زمانے میں جادو بہت عروج پر تھا اس لئے آپ جادو سے مشابہ ایک معجزہ لے کر آئے اور جب ساحران فرعون نے عصا کو سانپ ہوتے دیکھ لیا تو اس عمل کو خارق العادہ قرار دیے اوراسی وقت حضرت موسی ؑ پر ایمان لےآئے ۔{ اور ہم نے موسی کواشارہ کیا کہ اب تم بھی اپنا عصا ڈال دو وہ ان کے تمام جادو کے سانپوں کو نگل جائے گا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ حق ثابت ہوگیا اوران کاکاروبار باطل ہوااور سب مغلوب و ذلیل ہو کر واپس چلے گئے اور جادوگر سب کے سب سجدے میں گرپڑے ۔]۲
حضرت عیسی ؑکے زمانےمیں شام اور فلسطین میں طب یونان رایج تھا اور اس زمانےکے معالج مختلف بیماروں کےعلاج کےذریعے سے لوگوں کو حیران کرتے تھے اور لوگ اس پر تعجب کرتے تھے اس زمانے میں حضرت عیسی [ع]نےمردوں کو زندہ کر کے اور ناقابل علاج مریضوں کا معالجہ کر کےثابت کر دیا کہ ان کا رابطہ کسی ماورائی طبیعت سے ہے ۔پیغمبر اکرم ّ کے زمانےمیں فصاحت و بلاغت اپنےعروج پر تھیں اور اعراب شعر و شاعری میں مشہور تھے اور کوئی بھی ان کےفصاحت و بلاغت کے معیارتک نہیں پہنچ پاتاتھا ۔اس زمانے میں خدا وند متعال نےقرآن کریم کو فصاحت و بلاغت کے بالاترین مرتبے کے ساتھ نازل کیا تاکہ کوئی قرآن کےمعجز ہ ہونے کےبارےمیں شک نہ کرے ۔۳
ابن سکیت اس بارے میں امام رضا ٰ {ع} سے نقل کرتا ہے[میں نےان سےپوچھا کہ خدا وند متعال نےکیوں حضرت موسی ؑکو عصاو ید بیضا اور جادو ختم کرنے والا معجزہ اور حضرت عیسی ؑکو طبابت اور حضرت محمد ّکو قرآن و کلام الہی کے ساتھ بھیج دیا ؟آپ نے فرمایا :جب خدا وند متعال نے حضرت موسی ؑکو مبعوث کیا تو اس زمانے میں معاشرے میں سحر و جادو کا غلبہ تھا اس وقت حضرت موسی ؑ آئے اور سحر و جادو کو ختم کر دیا اور لوگوں پر اس طرح حجت تمام کی اور حضرت عیسیؑ کو اس زمانےمیں مبعوث کیا کہ فالج کی بیماری زیادہ ہو چکی تھی اور لوگ اسی بیماری کے علاج کی طرف محتاج تھے اس لئے حضرت عیسی [ع] اپنےپروردگار کی طرف سےایسی بےمثال چیز لےکر آئےاور وہ خد اکی اجازت سے مردوں کو زندہ کرتے ،نابیناوں کو بینائی دیتے اور جذام جیسی سخت بیماری سےنجات دیتے ۔انہوں نےاس طرح لوگوں پر حجت تمام کی اور حضرت محمد ّ کو ایسے زمانےمیں مبعوث کیا کہ خطابت او رشاعری زیادہ رایج ہو چکی تھیں اس وقت حضرت محمد ّ خدا کی طرف سے ایسے دستورات اور نصایح لے کر آئے کہ اعراب کی خطابت و شاعری کو ختم کر کے رکھ دیا اور اس طرح آپ نے لوگوں پر حجت تمام کی۔میں نےعرض کیا خدا کی قسم کسی کو بھی آپ کی طرح نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔]۴
۲۔جاودانگی :
اسلام آخری دین آسمانی اور پیغمبر اسلام ّ آخری پیغمبر ّ ہیں قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے [محمد تم میں سے کسی کا باپ نہیں ہیں لیکن وہ رسول خدا اورخاتم الرسل ہیں اور خداوند متعال تما م چیزوں کا علم رکھتا ہے ]۵
قرآن کریم قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے رسالت پیغمبر برھان و دلیل ہے ۶امام رضا[ع]قرآن کریم کی جاودانگی کے بارے میں فرماتے ہیں :قرآن کریم کسی خاص زمانے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہےبلکہ یہ تمام انسانوں پر حجت و برہان ہے ،باطل کے لئےاس میں کوئی گنجائش نہیں اور یہ خدا وند کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔۷اس حدیث شریف میں جاودانگی قرآن کے راز کو دو نکات میں خلاصہ کیا گیا ہے۔پہلا: یہ کہ قرآن خداوند متعال کی طرف سے نازل ہوا ہے اور باطل کی اس تک رسائی ممکن نہیں اور یہ ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے ۔دوسرا:انسان ہمیشہ دین آسمانی کی طرف محتاج ہے اور دین اسلام آخری دین آسمانی ہے اس لئے کسی پائیدار معجزے کی ضرورت ہے ۔۸
اعجاز بیانی یا لفظی قرآن کریم
اعجاز قرآن کی ایک صورت اعجاز لفظی و بیانی قرآن ہے اور یہ اعجاز متکلمین و مفسرین کے درمیان بہت مشہور ہے عرب صدر اسلام میں فصاحت و بلاغت میں بہت مہارت رکھتے تھے اور اعجاز لفظی و بیانی قرآن کو صحیح طریقے سے تشخیص دے سکتے تھے۹
لیکن اس بات کو مد نظر رکھنا چائیے کہ تنہااعجاز لفظی و بیانی معجزہ ٴ قر آن نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اسلام تمام لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ۔{اور پیغمبر ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے صرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے یہ اور بات ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں ]۱۰ اسی طرح قرآن کریم بھی ایک آسمانی کتاب ہے جو تمام انسانوں کے لئے نازل ہوئی ہے ۔[۔۔اور میری طرف سے اس قرآن کی وحی کی گئی ہے تاکہ اس کےذریعے میں تمھیں اور جہاں تک یہ پیغام پہنچے ،سب کو ڈراوں ۔۔۔۔۔۔۔]۱۱اسی لئے قرآن مجید مختلف جہات سے معجزہ ہے تاکہ تمام لوگ اعجاز قرآن سےفائدہ لے سکیں ۔
انس و جن کے لئے قران نے جو چیلنج کیا ہے اس سے بھی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کیونکہ اگر اعجاز قرآن صرف لفظی اور بیانی ہو تو تحدی قرآن عرب کے فصحاء و بلغاء کے ساتھ مختص ہو جاتا ہےاور دوسرے لوگوں کے لئے قرآن کا چیلنج بے معنی ہو کررہ جاتا ۔۱۲
اکثر مفسرین و متکلمین قرآن مجید کو از لحاظ الفاظ و معانی معجزہ قرار دیتے ہیں ۔لیکن اس اعجاز کی وضاحت میں مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں جو درجہ ذیل ہیں :
۱۔قرآن کریم کے الفاظ کا معجزہ ہونا اس کی فصاحت و بلاغت اورخارق العادہ ہونے کی وجہ سے ہے۔جاحظ [م۲۵۶] ابوعلی [م۳۰۳]، ابو ہاشم جبائی [م۳۲۱] عبد الجبار معتزلی [م ۴۱۵]اور علامہ حلی [م ۷۲۴] سب کا نظریہ یہی ہے ۔محقق طوسی نے اس نظریے کو قدمای متکلمین اور بعض متاخرین کی طرف نسبت دی ہے ۱۳لیکن تفتازانی کا خیال ہے کہ یہ نظریہ جمہور متکلمین کا ہے ۔ یہ گروہ اپنے نظریے کی اثبات کے لئےلکھتا ہے کہ فصحای عرب قرآن سے مقابلے کے لئے اپنی ناتوانی کا اعتراف کرتے تھے۔
۲۔قرآن کا معجزہ ہونا اس کے نظم اور اسلوب خاص کی وجہ سے ہے ۔یہ نظریہ بعض اشاعرہ جیسے قاضی ابوبکر باقلانی[م۴۰۳] اور بعض معتزلہ کا ہے۔اسلوب قرآن عربوں کے درمیان رائج روش سے مختلف تھا کیونکہ عصر نزول قرآن میں عرب ان روشوں میں سے کسی ایک روش کے مطابق گفتگو کیاکرتے تھے ۔۱۔محاورہ عربی ۲۔خطابت جوخطباء کے درمیان رائج تھی ۔۳۔اشعار۴۔سجع۔نظم قرآن سے مقصود بھی مختلف الفاظ کی ترتیب اور الفاظ کی ایک دوسرے کے ساتھ ترکیب پاناہے ۔اس لئے خداوند متعال نے کلمات قرآن کو ایک خاص انداز اور روش کے ساتھ شروع کیا جس روش سے عرب آشنائی نہیں رکھتے تھے ۔جیسے مطالع قرآن کے لئے عبارت [یاا یھاالناس]۱۴[یاایھاالمزمل ]۱۵[الحاقۃماالحاقۃ]۱۶ اور [عم یتساءلون]۱۷ اور مقاطع قرآن کے لئے مختلف الفاظ جیسے [یعملون ] [یفعلون ] استعمال ہوئے ہیں جو کلام عرب میں مرسوم نہیں تھے ۔
شہیدمرتضی مطہری اس کے بارے میں لکھتے ہے : "سبک قرآن نہ شعر ہے اور نہ نثر۔!شعر اس لئے نہیں کہ وزن اور قافیہ نہیں رکھتے ۔اس کے علاوہ شعر معمولا ایک قسم کی تخیل شاعرانہ ہوتا ہے لیکن قرآن میں تخیلات شعری اور خیالی تشبیہ موجود نہیں ہے۔اسی طرح نثر معمولی بھی نہیں ہےکیونکہ ایک قسم کا انسجام اورآہنگ و موسیقی کے ساتھ ہے جو کہ اب تک کسی بھی نثر میں دکھائی نہیں دیتے ۔مسلمان ہمیشہ قرآن کو مختلف آھنگ کے ساتھ تلاوت کرتے تھے اور کرتے ہیں جو قرآن کے ساتھ ہی مخصوص ہے ۔روایات میں بھی قرآن کو ہمیشہ خوب صورت آہنگ کے ساتھ تلاوت کر نے کا حکم ہوا ہے ۔ائمہ علیہم السلام کبھی اپنے گھروں میں اس طرح سے قرآن کی تلاوت کرتے کہ گلی سے جانے والا شخص رکنے پر مجبور ہوجاتا ۔کوئی بھی نثر قرآن کی طرح آہنگ پذیر نہیں ہے اور وہ بھی ایسا آہنگ جو روح انسان کے ساتھ متناسب ہے نہ وہ آہنگ جو مجالس لہو لعب کے ساتھ متناسب ہوتا ہے "۔۱۸
۳۔اعجاز قرآن فصاحت و بلاغت اور خارق العادہ اور منظم اسلوب کی وجہ سے ہے ۔
اس نظریہ کو بعض علماء جیسے شیخ طوسی [۴۶۰] امام الحرمین جوینی[م۴۷۸] ابن میثم بحرانی [م۶۹۹] اور فخر رازی [م۶۰۶] نے مطرح کیا ہے۔یہاں یہ شبہ ایجاد ہوتا ہے کہ اگر فصاحت و بلاغت انسان کا بنایا ہوا ہو تا تو انسان کیوں قرآن کی طرح کلام لانے سے قاصر ہے دوسرے الفاظ میں انسان دوسروں سے گفتگو کرنے کے لئے اور اسی طرح معانی اور مقاصد کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے الفاظ کو معانی کے لئے وضع کرتا ہے۔بنابرین الفاط کے ذریعے معانی کی حکایت کرناانسان کے ذوق و شوق کی وجہ سے ہے لہذا یہ ایک خارق العادہ کام نہیں ہو سکتا۔اس کا جواب یہ ہے کہ فصاحت و بلاغت کے تین ارکان ہیں ۔
۱۔انسان معانی ہستی اور حقیقت ہستی سے آگاہ ہو۔
۲۔الفاظ کے اندر معانی کےلئے وضع ہونے کی صلاحیت موجود ہو۔
۳۔اپنے مقاصد اور معانی کو مناسب الفاظ کے ذریعے مخاطب تک پہنچائے۔
ان تین ارکان میں سے صرف وضع الفاظ انسان کے اختیار میں ہے لیکن معانی اور حقیقت سے آشنائی اور اپنے مقاصد اور معانی کو مخاطب تک پہنچانے کے لئے مناسب الفاظ کا استعمال کرنا بہت ہی محدود ہیں ۔بنابرین انسان ہر گز قرآن کریم کی طرح کوئی کلام جوکہ تجلی علم نامحدود خداوند متعال ہے نہیں لا سکتا ۔۱۹
فصحای عرب کے اعترافات:
فصحای عرب میں سے ایک گروہ کا نام جو اعجاز قرآن کے معترف تھا تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے ۔ان میں سے بعض افراداعجاز قرآن کی شناخت کے بعد پیغمبر اکرم ّ پر ایمان لے آئےلیکن بعض افراد نے اپنی نفسانی خواہشات کی وجہ سے اعجاز قرآن سے انکار کیا ۔
ولید بن مغیرہ جو بزرگان عرب میں سےتھا اور شعراء اپنے اشعار کو اس کے سامنے پڑھ لیا کرتے تھے تاکہ وہ بہترین اشعار کا انتخاب کرے۔ایک دن اس نے پیغمبر اکرم ّ سے قرآن پڑھنے کی درخواست کی ۔پیغمبر اکرم ّ نے سورۃ فصلت کی تلاوت فرمائی اور جب تیرھویں آیت پر پہنچے تو ولید لرزنے لگا اور اپنے گھر کی طرف گیا اور دوبارہ قریش کی طرف نہیں آیا ۔قریش جب اس موضوع سے آگاہ ہوا تو ابوجہل کو یہ خبر دی کہ ولید بن مغیرہ دین محمد ؐکے گرویدہ ہو چکاہے ۔ابو جہل اس کے پاس گیا اور اس کی سرزنش کی ۔ولید نے کہا میں دین اسلام کا گرویدہ نہیں ہو چکا ہوں بلکہ ایسا کلام سن چکاہوں جو انسان کو لرزاتا ہے۔ابوجہل پوچھتا ہے یہ کلام شعر تھا یا خطابت ؟ولید کہتا ہے نہ شعر تھا اور نہ خطابت چونکہ میں اشعار اور خطابت کی پہچان رکھتا ہوں۔ابوجہل کہتا ہے پس کیا کرے ؟ ولید نے کہا مجھے کل تک مہلت دو تاکہ اچھےطریقے سے اس کے بارے میں سوچ سکوں ۔ایک دن بعد اس نے قریش سے کہا کہ قرآن جادو ہے ۔لہذا خداوند متعال نے سورہ مدثر کی گیارویں آیت سے اکتیسوں آیت تک اس بارے میں نازل کی ہے ۲۰
ہشام بن حکم کہتا ہے : حج کے ایام میں ابن ابی العوجاء،ابوشاکر دیصانی ،عبد الملک بصری اور ابن مقفع خانہ کعبہ کےاطراف میں جمع ہو گئے اور حجاج کی توہین اور قرآن کو لعن و طعن کرنے لگے ۔ان میں سے ہر ایک نے ارادہ کیا کہ ایک چوتھائی قرآن کا مقابلہ کرے اور آیندہ سال حج کے ایام میں وہ کلام پیش کرے ۔اور جب حج کا موسم شروع ہو ا توابن ابی العوجا ء کہتاہے: میں اسی وقت اس آیت کے بارے میں سوچنے لگا [اور جب وہ لوگ یوسف کی طرف سے مایوس ہو گئے تو الگ جا کر مشورہ کرنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔]۲۱لیکن اس آیت کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ کوئی چیز بھی اضافہ نہ کر سکا اور اسی آیت نے مجھے دوسری آیتوں کے بارے میں سوچنےسے روک دیا ۔
عبد الملک کہتاہے :میں اس آیت کے بارےمیں سوچنے لگا[انسان تمہارے لئے ایک مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے لہذا اسے غور سے سنو ۔یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ہو یہ سب مل بھی جائیں تو ایک مکھی نہیں پیدا کر سکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو یہ اس سےچھڑا بھی نہیں سکتے کہ طالب و مطلوب دونوں بہت ہی کمزور ہیں ۔]۲۲
ابو شاکر کہتا ہے : میں اسی زمانےمیں اس آیت کے بارےمیں فکر کرنے لگا[یاد رکھو اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور کوئی خدا ہوتا توزمین و آسمان دونوں برباد ہو جاتے عرش کامالک پروردگار ان کی باتوں سےبالکل پاک و پاکیزہ ہے ۔]۲۳
ابن مقفع کہتاہے :اے دوستو: یہ قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا،میں بھی اس آیت کے بارے میں سوچتے سوچتے رہ گیا[اورقدرت کا حکم ہوا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اوراے آسمان اپنے پانی کو روک لے اور پھر پانی گھٹ گیا اور کام تمام کر دیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اورآواز آئی کہ ہلاکت قوم ظالمین کے لئے ہے ۔]۲۴ لیکن اس کی حقیقی شناخت نہ ہو سکی اور اس طرح کے کلام پیش کرنے سے عاجز آگیا ۔ہشام کہتاہے جب امام صادق[ع]ان کے پاس سے گزرے اور آپ نےاس آیت کی تلاوت کی[آپ کہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی طرح کوئی کلام لےآئیں تو کبھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کےمددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ بن جائیں۔]۲۵وہ لوگ تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اورکہنےلگے کہ اگراسلام حقیقت ہے توصرف جعفر ابن محمد ہی محمد ؐ کا حقیقی جانشین ہو سکتاہے ،خدا کی قسم ہر گز ان لوگوں کو نہیں دیکھامگر سب ان کی ہیبت سے لرزنےلگے اوراپنی ناتوانی کا اعتراف کرتے ہوئے پراگندہ ہو گئے۔۲۶
اعجاز قرآن بہ لحاظ محتوی ومعارف:
اعجاز قرآن کریم کا ایک جہت محتوی و معارف قرآن ہے ۔بہت سارےمتکلمین اور مفسرین نے اس جہت کی تصریح کی ہے۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے محتوی و معارف قرآن کریم کی جہت کو اہم ترین وجہ قرار دی ہے ۔۲۷
خداوند متعال قرآن کریم کی اس طرح توصیف کرتا ہے:[اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گذاروں کے لئے ہدایت ،رحمت اور بشارت ہے ۔۲۸ یعنی قرآن کریم ہدایت ہے اور تمام حقایق اور معارف کو جو انسان کی سعادت کے لئے ضروری ہیں بیان کرتا ہے ۔۲۹قرآن کریم منکرین رسالت کے بارے میں فرماتاہے ۔[تو آپ کہ دیجئے کہ اچھا تم پرودرگار کی طرف سے کوئی کتاب لے آو ٴجو دونوں سے زیادہ صحیح ہو اور میں اس کا اتباع کر لوں اگر تم اپنی بات میں سچے ہو۔]۳۰یہ آیت قرآن کریم کے محتوی اور معارف کے ذریعے سے چیلنج کرتی ہے نہ فصاحت و بلاغت کے ذریعے سے ،کیونکہ ہدایت میں جو چیز نقش رکھتی ہے وہ محتوی ومعارف قرآن ہے ۔۳۱
قرآن کریم میں بہت سارے موضوعات مطرح ہوئے ہیں کہ ان سب کو بیان کرنے کے لئے ہزاروں کتابوں کی ضرورت ہے۔لیکن یہاں ہم بعض موضوعات کو آشنائی کی حد تک بیان کریں گے ۔
غیبی خبریں :
بعض متکلمین ومفسرین کےعقیدےکے مطابق قرآن کریم کی غیبی خبریں اعجاز قرآن کریم کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ یہ خبریں زمانےکے لحاظ سے مختلف ہیں ۔
۱۔سابقہ امتوں کے بارےمیں خبریں :
قرآن کریم سابقہ امتوں کی حالات کو بیان کرتا ہےجیساکہ ارشاد رب العزت ہے:[اےپیغمبر: یہ غیب کی خبریں ہیں جن کی ہم آپ کی طرف وحی کر رہےہیں جن کا علم نہ آپ کو تھااور نہ آپ کی قوم کو ۔۔۔۔۔۔۔]۳۲
ب۔ کفار و منافقین کے باطن اورسازشوں کا آشکار کرنا۔
بہت ساری آیتیں اس قسم کےساتھ مختص ہیں ۔جیسے منافقین کےایک گروہ کے بارے میں جنہوں نے ظاہرا پیامبر اسلام پر ایمان لےآئے تھے، ان کے اوصاف تورات سے لوگوں کو بیان کرتے تھے فرماتا ہے:[یہ یہودی ایمان لانےوالوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لے آئے ہیں اور جب ایک دوسرے سےآپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کیا تم مسلمانوں کو توریت کے مطالب بتا دو گے کہ وہ اپنےنبی کے اوصاف سے تمھارے اوپراستدلال کریں کیا تم عقل نہیں رکھتے کہ ایسا احمقانہ کام انجام دیتے ہو ۔]۳۳اسی طرح جب خیبر کےیہودیوں میں سے گیارہ نفر نےسازش کی تھی کہ ابتداء میں محمد پر ایمان لائیں گےاورآخر میں کافر ہو جائیں گےاور کہیں گےکہ ہم نےتورات میں جو اوصاف دیکھے تھے وہ ان میں موجود نہیں ہیں ،شاید اس طریقے سےمسلمانوں کو اس سے دور کر سکیں لیکن خداوند متعال نےان کی سازش کو برملا کر دیا ۔جیسے ارشاد ہوتا ہے:[اور اہل کتاب کی ایک جماعت نےاپنےساتھیوں سے کہاکہ جو کچھ ایمان والوں پر نازل ہو اہےاس پر صبح ایمان لےآوٴ اورشام کو انکار کردو شاید اس طرح وہ لوگ بھی پلٹ جائیں ۔]۳۴
ج۔مستقبل کے واقعات اور حوادث کے بارےمیں خبریں:
قرآن کریم کی بعض آیتیں آنے والے واقعات اور حوادث کے بارے میں خبر دیتی ہیں جو بعد میں رونما ہو گئے ۔
1:پیغمبر اکرم ص کا مکہ کی طرف واپسی کی خبر:
[بے شک جس نے آپ پر قرآن کا فریضہ عائد کیا ہے وہ آپ کو آپ کی منزل تک ضرور واپس پہنچائے گا ۔۔۔۔]۳۵
کلمہ معاد کے بارے میں بہت سے اقوال بیان ہوئے ہیں لیکن مشہور ترین قول یہ ہے کہ معاد سے مراد زادگاہ پیامبر اسلام یعنی مکہ ہے ۔۳۶علامہ طباطبائی نے سیاق آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس صورت کو ارجح قرار دی ہے ۔۳۷ یہ خبر اور وعدہ الہی جلد ہی واقع ہوں گے اور پیغمبر اسلام فتح مکہ کے بعد خانہ خدا کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے ۔
2:روم کا ایران پر غالب آنے اور فتح کی خبر ۔
[روم والے مغلوب ہوگئے قریب ترین علاقےمیں لیکن یہ لوگ مغلوب ہو جانے کے بعد عنقریب پھر غالب ہو جائیں گے۔]۳۸دس سال سے کم عرصے میں یہ واقعہ پیش آیا اور روم والے یرانیوں پر کامیاب ہو گئے ۔۳۹
ہماہنگی اور عدم تناقض
متکلمین و مفسرین کے ایک گروہ کے نزدیک اعجاز قرآن سے مراد اس میں اختلافات اور تناقض کانہ ہوناہے۔۴۰ خداوند متعال اس کے بارے میں فرماتا ہے:[کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر وہ غیر خدا کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا ۔]۴۱ کلمہ [کثیرا]اس آیت میں وصف توضیحی ہے نہ قید احترازی ۔اس بنا پر آیت کا ترجمہ یہی ہوتا ہے ۔۴۲ علامہ طباطبائی اس وجہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :وہ انسان جو عالم مادہ میں زندگی کرتا ہے ہمیشہ تکامل پاتا ہے اور اپنے کمزوریوں اور اشتباہات [چاہے گفتاری ہو یا کرداری ] کوسمجھ جاتا ہے۔ قرآن مجید جو تئیس{23} سال کے عرصے میں مکہ اور مدینہ میں مختلف زمانوں میں اور مختلف حالات اور متفاوت شرائط کے ساتھ نازل ہواہے اس میں نسان کی ضرورت کے تمام احکام اور معارف الہی موجود ہیں پھر بھی کوئی اختلاف اور تناقض نظر نہیں آتا اور بعض آیتیں دوسری آیتوں کی تفسیر کرتی ہیں۔شیخ صدوق روایت نقل کرتے ہیں: کہ ایک شخص امام علی [ع]کے پاس آیا اور کہا: کہ مجھے قرآن کے بارے میں شک و تردید ہوا ہے چونکہ ان میں کچھ آیتیں ایسی ہیں جو دوسری آیتوں کے ساتھ تناقض رکھتی ہیں۔امام ؑنے اس سے آیات پوچھی اور اس کے بعد سب کا جواب دیا اور وہ شخص شک و تردیر سے رہا ہو گیا۔اس روایت کا کچھ حصہ یہ ہے [اس شخص نے سوال کیا قرآن کبھی کہتا ہے [آج ہم انہیں اس طرح فراموش کریں گے جس طرح انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو فراموش کی تھی۔]۴۳یا ارشاد ہوتا ہے: [انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے تو اللہ نے بھی انہیں نظر انداز کر دیا ہے ۔]۴۴اور ان آیتوں کے مقابلے میں کہتا ہے: [آپ کا پروردگار بھولنے والے نہیں ہے ۔]۴۵امام ؑ نے جواب میں فرمایا : پہلی اور دوسری آیت میں نسیان سے مراد یہ ہے خدا آخرت میں انہیں پاداش نہیں دے گا کیونکہ انہوں نےدنیا میں اس کی اطاعت نہیں کی ہے لیکن تیسری آیت میں نسیان[غفلت و فراموشی]کو خدا سے سلب کیا ہے کیونکہ خداوند متعال دانا اور حفیظ ہے ۔۴۶
پیغمبر کا امی ہونا :
بعض متکلمین اور مفسرین اعجاز قرآن کو بیان کرتے ہوئے غیبی اخبار کی بحث میں اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کرتے
ہیں لیکن بعض نے مستقل طور پر اس حوالے سے بحث کی ہے ۔خدادند متعال پیغمبر اکرم ّ کے امی ہونے کے بارے میں فرماتاہے: [خداوند متعال وہ ذات ہے جس نے ان پڑھ معاشرے سے ایک پیغمبر کو مبعوث کیا ۔۔۔۔]۴۷کلمہ [امیین ] امی کا جمع ہے اور امی اسے کہتے ہیں جو پڑھنا لکھنا جانتا نہ ہو۔۴۸
یہ آیت بھی پیغمبر اکرم ّ کے امی ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔[آپ کہ دیجئے کہ اگر خدا چاہتا تو میں تمہارے سامنے تلاوت نہ کرتا اور تمہیں اس کی اطلاع بھی نہ کرتاحالانکہ میں اس سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک مدت تک رہ چکا ہوں تو کیا تمہارے پاس اتنی عقل نہیں ہے ۔]۴۹
جب فصحای عرب نے قرآن کے مقابلے میں اپنے عجز و ناتوانی کو دیکھ لیا تو کہنے لگے:[یہ تو صرف اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جسے انہوں نے لکھوایا ہے اور وہی صبح و شام ان کے سامنے پڑھے جاتے ہیں ۔]۵۰خداوند متعال اس کے جواب میں فرماتاہے:[اور ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ مشرکین کہتے ہیں کہ انہیں کوئی انسان اس قرآن کی تعلیم دے رہا ہے ۔حالانکہ جس کی طرف یہ نسبت دیتے ہیں وہ عجمی ہے اور یہ زبان عربی واضح و فصیح ہے۔]۵۱یہ آیت بھی اسی پہلو کی تصریح کرتی ہے۔[اے پیغمبر: آپ اس قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے ورنہ یہ اہل باطل شبہ میں پڑ جاتے ۔]۵۲
حوالہ جات:
1. عنکبوت ،50،51۔ترجمہ علامہ ذیشان جوادی ۔
2. اعراف،۱۱۷،۱۲۰۔
3. ابوبکر باقلانی ،الانصاف ص۶۱۔ابوالحسن ماودی ،اعلام النبوۃ،ص۱۳۶۔عبد الرازاق لاہیجی،گوہر مراد،ص۳۸۵۔
4. محمد بن یعقوب کلینی ،اصول کافی ،ج۱،کتاب العقل و الجھل ،ج۲۰
5. احزاب ،۴۰۔
6. ابو القاسم خوئی ،البیان ،ص ۵۴۔البوا لحسن ماوردی،اعلام النبوۃ۔
7. الامام رضا،مسند، ج۱ کتاب التفسیر،باب فضل القرآن ،ص ۳۰۹،ح ۱۳۔
8. عبد اللہ جواد آملی،علی بن موسی الرضا و القران الکریم ،ص۱۲،۱۳۔
9. روح اللہ خمینی ،تبیان آثار موضوعی ،ص ۶۱۔
10. سباء،۲۸۔
11. انعام ،۱۹۔
12. محمد حسین طباطبائی ۔المیزان ،ج۱۰،ص ۱۶۳،ج۱،ص۵۸۔
13. سعد بن تفتازانی ،شرح المقاصد،ج۵،ص۲۸۔
14. بقرۃ،۲۱۔
15. مزمل ،۱۔
16. حاقۃ،۱۔
17. نباء،۱۔
18. مرتضی مطہری ،مجموعہ آثار ،ج۲،ص ۲۱۳،۲۱۴۔
19. محمد حسین طباطبائی،المیزان ،ج۱،ص۶۹،۷۱۔عبد اللہ جواد آملی ،تفسیر موضوعی قرآن کریم ،ج۱،ص۱۶۵،۱۶۸۔
20. محمد حسین طباطبائی۔المیزان ،ج۲،ص۸۵،۸۶،۹۲۔
21. یوسف،۸۰
22. حج،۷۳۔
23. انبیاء،۲۲۔
24. ہود،۴۴۔
25. اسراء،۸۸۔
26. احمد بن علی طبرسی،الاحتجاج ،ج۲،ص ۱۴۲۔
27. محسن فیض کاشانی ،علم القین ،ج۱،ص۴۸۶۔
28. نمل،۸۹۔
29. محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۲،ص۳۲۴۔
30. قصص،۴۹۔
31. عبد اللہ جواد آملی،تفسیر موضوعی قرآن کریم ،ج۱،ص۱۳۸۔ابوالحسن شعرانی ،شرح تجرید،ص۵۰۱۔
32. ہود،۴۹،یوسف۱۰۲،آل عمران۴۴۔
33. بقرۃ،۷۶۔
34. آل عمران،۷۲۔
35. قصص،۸۵۔
36. محمد باقر مجلسی ،حیوۃالقلوب،ج۲،ص۱۵۹۔
37. محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۱۶،ص۸۶،۸۸۔
38. روم،۲،۴۔
39. ابوا لقاسم خوئی ،البیان ،ص۸۳۔محمد حسین طباطبائی ،المیزان،ج۱،ص۶۵۔
40. قاضی عبد الجبار ،المغنی،ج۱۶،ص۳۲۸۔ابوعبد اللہ قرطبی،الجامع الاحکام القرآن ،ج۱ص۷۵۔محمد باقر مجلسی،حیوۃالقلوب،ج۳،ص۱۵۵۔
41. نساء،۸۲۔
42. محمد حسین طباطبائی ،المیزان ،ج۵،ص۲۰۔
43. اعراف،۵۱۔
44. توبہ،۶۷۔
45. مریم ،۶۳۔
46. محمد بن علی صدوق،التوحید،ج۵،ص۲۵۴،۲۶۹۔ابوالقاسم خوئی ،البیان،ص۹۸،۱۰۳۔۔عبداللہ جواد آملی ،تفسیر موضوعی قرآن کریم ،ج۱،ص۱۶۹۔
47. جمعہ ،۲۔
48. ابن منظور ،لسان العرب ،ج۱۲ ص ۳۴۔
49. یونس،۱۶۔
50. فرقان،۵۔
51. نحل،۱۰۳۔
52. عنکبوت،۴۸،بقرۃ،۲۳۔